Ú©Ûانی ایک ÛÛŒ ÛÛ’ Û”Û”Û”Û” سÛیل اØ+مد قیصر
ÛŒÛ ØªÚ©Ø¨Ø± سے اکڑی Ûوئی گردنیں‘ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلنے Ú©ÛŒ عادت‘ اپنے سے کمزروں پر دھونس جمانے کا چلن‘ Ûر وقت طاقت Ú©Û’ بے جا اظÛار Ú©Û’ نت نئے طریقے‘ ÛŒÛ Ø³Ø¨ Ú©Ú†Ú¾ کرتے Ûوئے Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° کا ÛŒÛ Ùرمان Ùراموش کر دیا جاتا ÛÛ’ Ú©Û ''زمین پر اکڑ کر مت چلو Ú©Û Ù†Û ØªÙˆ تم زمین Ú©Ùˆ پھاڑ سکتے ÛÙˆ Ù†Û Ø¨Ù„Ù†Ø¯ÛŒ میں Ù¾Ûاڑوں تک Ù¾ÛÙ†Ú† سکتے ÛÙˆ (Ù…ÙÛوم)Û” جÛاں ÛÙ… Ù†Û’ بے شمار دوسری تعلیمات Ú©Ùˆ Ùراموش کر رکھا ÛÛ’ ÙˆÛاں ایسی باتوں Ú©ÛŒ پروا کون کرتا ÛÛ’ØŸ اسی لیے تو Ûر روز طاقت Ú©Û’ بے شمار مظاÛر نظروں سے گزرتے Ûیں۔ ایسے ایسے واقعات Ú©Û Ø¯ÛŒÚ©Ú¾ کر روØ+ تھرتھرانے Ù„Ú¯Û’Û” جس Ú©Û’ Ûاتھ میں طاقت آگئی گویا اÙسے اپنے سے کمزوروں پر دھونس جمانے کا Ø+Ù‚ Ø+اصل Ûوگیا۔ اÙسے ÛŒÛ Ø+Ù‚ میسر کیوں Ù†Û ÛÙˆÚ©Û Ûمارے معاشرے میں 72 سالوں سے ÛŒÛÛŒ سب Ú©Ú†Ú¾ تو ÛورÛا ÛÛ’Û” میرے Ûاتھ میں لاٹھی ÛÛ’ تو بس پھر بھینس بھی میری ÛÛ’Û” گورنر جنرل غلام Ù…Ø+مد Ú©ÛŒ رخصتی Ú©Û’ بعد ملک Ú©Û’ اعلیٰ ترین منصب پر اسکندر مرزا Ùائز Ûوئے تو Ûر Ø+کمران Ú©ÛŒ طرØ+ دل میں ÛŒÛÛŒ خواÛØ´ تھی Ú©Û Ù…Ø±ØªÛ’ دم تک اقتدار اÙÙ† Ú©Û’ گھر Ú©ÛŒ باندی بنا رÛÛ’Û” مضبوطیٔ اقتدار Ú©Û’ لیے صر٠تین سالوں Ú©Û’ دوران پانچ وزرائے اعظم Ú©Ùˆ گھر کا Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø¯Ú©Ú¾Ø§ÛŒØ§ گیا۔ آخری وزیراعظم چودھری Ù…Ø+مد علی Ø¨ÙˆÚ¯Ø±Û Ø¬Ø§ØªÛ’ جاتے ملک Ú©Ùˆ 1956Ø¡ کا آئین دے گئے جس Ú©Û’ تØ+ت اسکندر مرزا ملک Ú©Û’ Ù¾ÛÙ„Û’ صدر بن گئے۔ اÙدھر ملک Ú©Ùˆ آئین نصیب Ûوا اور اÙدھر انتخابات سر پر آ گئے۔ اپنی پوزیشن دیکھتے Ûوئے اسکندرمرزا Ú©Û’ Ø°ÛÙ† میں ÛŒÛ Ø³ÙˆÚ† سمائی Ú©Û Ø§Ú¯Ø± اپنے دوست جنرل ایوب خان Ú©Ùˆ شریک٠اقتدار کر لیں تو تادیر اقتدار میں رÛÙ†Û’ Ú©ÛŒ ان Ú©ÛŒ خواÛØ´ پوری Ûوسکتی ÛÛ’ اور پھر ایسا کیا بھی گیا۔ تمام داؤ پیچ آزمانے Ú©Û’ بعد بھی بالآخر 7 اکتوبر 1958Ø¡ کا ÙˆÛ Ø¯Ù† آگیا جب آئین منسوخ کرکے ملک میں Ù¾Ûلا مارشل لا ناÙØ° کردیا گیا۔ مضبوطیٔ اقتدار Ú©Û’ لیے Ûر Ø+Ø±Ø¨Û Ø§Ù“Ø²Ù…Ø§Ù†Û’ والے اسکندر مرزا بعد ازاں استعÙیٰ لینے والوں Ú©Û’ سامنے بھیگی بلی بنے Ú©Ú¾Ú‘Û’ تھے۔ تمام Ûیکڑی Ù†Ú©Ù„ Ú†Ú©ÛŒ تھی اور اÙسی عالم میں موصو٠کبھی واپس Ù†Û Ø§Ù“Ù†Û’ Ú©Û’ لیے بیرون٠ملک بھجوا دیے گئے۔ Ú©Ûاں تو اتنی طاقت Ú©Û Ù¾Ø§Ù†Ú† پانچ وزرائے اعظم Ú©Ùˆ گھر بھجوا دیا اور Ú©Ûاں ÛŒÛ Ø¹Ø§Ù„Ù… Ú©Û Ø§Ù¾Ù†Ø§ وطن ÛÛŒ چھوڑنا Ù¾Ú‘ گیا۔
اسکندر مرزا Ú©ÛŒ Ø¬Ú¯Û Ø³Ù†Ø¨Ú¾Ø§Ù„Ù†Û’ والے اپنی کتاب ''Ùرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں لکھتے Ûیں ''میں Ù†Û’ سوچا Ú©Û Ú©ØªÙ†ÛŒ بدقسمتی Ú©ÛŒ بات ÛÛ’ Ú©Û Ø+الات ایسے نازک موڑ Ù¾ÛÙ†Ú† گئے Ûیں جÛاں ÛŒÛ Ø§Ù†ØªÛائی قدم اÙٹھانا پڑرÛا ÛÛ’ØŒ لیکن دوسرا کوئی چارÛÙ” کار بھی Ù†Ûیں تھا Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û ÛŒÛ Ù…Ù„Ú© بچانے Ú©ÛŒ آخری کوشش تھی‘‘۔ ملک بچانے Ú©ÛŒ اÙس آخری کوشش Ú©Û’ طورپر ٹائپ رائٹر پر لکھا Ûوا ایک ÙÛŒØµÙ„Û Ø³Ø§Ø¦ÛŒÚ©Ù„ÙˆØ³Ù¹Ø§Ø¦Ù„ کرکے اخبارات Ú©Û’ دÙاتر میں بھیج دیا گیا اور ملک میں Ù¾ÛÙ„Û’ مارشل لا Ù†Û’ اپنے پنجے گاڑ لیے۔
ملک بچانے Ú©Û’ لیے آنے والی شخصیت Ù†Û’ ملک بچانے کا راگ الاپتے Ûوئے Ûر ÙˆÛ Ù¾ÛŒÙ†ØªØ±Ø§ آزمایا جو اÙÙ† Ú©Û’ اقتدارکو طوالت بخش سکتا تھا‘ لیکن Ûونی تو Ûوکر رÛتی ÛÛ’Û” 1962Ø¡ Ú©Û’ انتخابات میں مادر٠ملّت Ù…Ø+ØªØ±Ù…Û ÙØ§Ø·Ù…Û Ø¬Ù†Ø§Ø+ Ú©Û’ ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک Ú©Û’ باعث عوام میں Ø+کومت Ú©Û’ خلا٠بیزاری پیدا Ûونے لگی‘ جس میں 1965Ø¡ Ú©ÛŒ جنگ Ú©Û’ بعد تاشقند معاÛدے سے تیزی آ گئی اور ایوب خان Ú©Û’ لاڈلے نوجوان‘ مسٹر ذوالÙقار علی بھٹو Ù†Û’ اپنے Ù…Ø+سن Ú©ÛŒ پالیسیوں پر شدید تنقید کا Ø³Ù„Ø³Ù„Û Ø´Ø±ÙˆØ¹ کردیا۔ گویا جو Ú©Ú†Ú¾ اسکندر مرزا Ú©Û’ ساتھ Ûوا تھا‘ ÙˆÛÛŒ Ú©Ú†Ú¾ ایوب خان Ú©Û’ ساتھ Ûونے جارÛا تھا۔ ایوب خان Ù†Û’ Ûاتھ پاؤں تو بÛت مارے لیکن جانے کا وقت آچکا تھا۔ پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ Ú©Û’ ساتھ گول میز کانÙرنس کا بھی کوئی ÙØ§Ø¦Ø¯Û Ù†Û Ûوا۔ 1969Ø¡ میں ایوب خان پر Ùالج کا Ø+Ù…Ù„Û Ûوا اور ÙˆÛ ØµØ§Ø+ب٠Ùراش ÛÙˆ گئے۔ Ûمت پھر بھی Ù†Ûیں Ûاری Ú©Û Ø¨ÛŒÙ…Ø§Ø± Ûونے Ú©Û’ باوجود ویل چیئر پر تشری٠لاتے تھے۔ جب Ø¯ÛŒÚ©Ú¾Ø§Ú©Û ØªÙ…Ø§Ù… Ø+ربے ناکام ثابت ÛورÛÛ’ Ûیں تو پھر چاروناچار 25 مارچ 1969Ø¡ Ú©Ùˆ عÛدے سے استعÙیٰ دے کر گھر جاتے ÛÛŒ بنی۔ جاتے جاتے اپنے ÛÛŒ آئین Ú©ÛŒ خلا٠ورزی کرتے Ûوئے اقتدار جنرل ÛŒØ+ییٰ خان Ú©Û’ سپرد کر گئے۔
ملک Ú©Û’ قیام Ú©Û’ Ùوراً بعد Ù…Ø+لاتی سازشوں Ú©ÛŒ ان مثالوں Ú©Ùˆ تو پھر جیسے روایت ÛÛŒ بنا لیا گیا Ûو‘ جب بھی جس طاقتور Ù†Û’ چاÛا‘ سب Ú©Ú†Ú¾ پاؤں تلے روند دیا۔ ایوب خان Ú©Û’ بعد بھٹو صاØ+ب ملک Ú©Û’ وزیراعظم بنے تو اÙÙ†ÛÙˆÚº Ù†Û’ بھی جانے والوں کا چلن ÛÛŒ اختیار کیا۔ مجال ÛÛ’ جو رتی برابر سبق Ø+اصل کیا ÛÙˆÚ©Û ÙˆÙ‚Øª ÛÙ…ÛŒØ´Û Ø§ÛŒÚ© سا Ù†Ûیں رÛتا۔ ''صر٠میں‘‘ Ú©Û’ چکر میں اظÛار٠طاقت Ú©Û’ درجنوں مظاÛر سامنے آئے۔ مضبوطیٔ اقتدار Ú©ÛŒ خاطر ÙˆÛÛŒ غلطی Ú©ÛŒ جو اسکندر مرزا کر Ú†Ú©Û’ تھے۔ متعدد جنرلز Ú©Ùˆ سپرسیڈ کرتے Ûوئے جنرل ضیاالØ+Ù‚ Ú©Ùˆ آرمی چی٠بنایا۔ بالکل اسکندر مرزا Ú©ÛŒ طرØ+‘ ÛŒÛÛŒ خواÛØ´ تھی Ú©Û Ø¬Ø¨ طاقتور میرے ساتھ ÛÙˆÚº Ú¯Û’ تو پھر کسی Ú©ÛŒ کیا مجال Ú©Û’ مجھے اقتدار سے Ù…Ø+روم کر سکے۔ بھٹو صاØ+ب Ú©Û’ تو ÙˆÛÙ… Ùˆ گمان بھی Ù†Û Ûوگا Ú©Û Ø¬Ùˆ شخص اÙÙ†Ûیں دیکھ کر جلتا Ûوا سگریٹ اپنی پتلون Ú©ÛŒ جیب میں ڈال لیتا ÛÛ’ مبادا اÙسے سگریٹ پیتے دیکھ کر بھٹو صاØ+ب مائنڈ کر جائیں‘ ÙˆÛÛŒ اÙÙ†Ûیں گھر کا Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø¯Ú©Ú¾Ø§Ø¦Û’ گا۔ پھر 5 جولائی 1977Ø¡ Ú©ÛŒ ÙˆÛ Ø´Ø§Ù… آگئی جب وقت Ú©Û’ وزیراعظم Ú©Ùˆ عین اÙس وقت معزول کیا گیا جب اÙس کا اپوزیشن Ú©Û’ ساتھ معاÛØ¯Û ØªÙ‚Ø±ÛŒØ¨Ø§Ù‹ ÛÙˆ چکا تھا۔ نوے دنوں Ú©Û’ اندر اندر انتخابات کرانے Ú©Û’ وعدے Ú©Û’ ساتھ ملک میں ایک اور مارشل لا ناÙØ° ÛÙˆ گیا۔ پھر ÛŒÛاں اÙس سے بھی Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ø®ÙˆÙناک Ûوا جو Ú©Ú†Ú¾ اسکندرمرزا Ú©Û’ ساتھ ÛÙˆ چکا تھا۔کÛانی ÙˆÛÛŒ تھی‘ Ø§Ù„Ø¨ØªÛ Ú©Ø±Ø¯Ø§Ø± تبدیل ÛÙˆ Ú†Ú©Û’ تھے۔ اسکندر مرزا Ú©ÛŒ Ú©Ù… از Ú©Ù… جان بخشی Ûوگئی تھی لیکن ÛŒÛاں Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ù‚ØªØ¯Ø§Ø± سے Ù…Ø+رومی کا ØµØ¯Ù…Û Ø¬Ú¾ÛŒÙ„Ù†Ø§ پڑا Ø¨Ù„Ú©Û ØªØ®ØªÛ Ø¯Ø§Ø± پر بھی لٹکنا پڑا۔ ÙˆÛ Ø¬Ùˆ Ú©Ûا کرتے تھے Ú©Û Ù…ÛŒØ±ÛŒ موت پر ÛÙ…Ø§Ù„ÛŒÛ Ø¨Ú¾ÛŒ روئے گا‘ جب دنیا سے رخصت Ûوئے تو ÛÙ…Ø§Ù„ÛŒÛ Ú†Ù¾ چاپ اپنی Ø¬Ú¯Û Ù¾Ø± کھڑا دیکھتا رÛا۔ مضبوطیٔ اقتدار Ú©Û’ لیے کیا Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ûیں کیا تھا‘ کس کس Ú©ÛŒ Ø+Ù‚ تلÙÛŒ Ù†Ûیں Ú©ÛŒ تھی۔ تØ+Ùظ٠اقتدار کیلئے بنائی جانے والی Ùیڈرل سکیورٹی Ùورس بھی ریت Ú©ÛŒ دیوار ثابت Ûوئی۔ بیرونی دوستوں Ú©ÛŒ مداخلت بھی کسی کام Ù†Û Ø§Ù“Ø¦ÛŒÛ” Ù…Ø¹Ø§Ù…Ù„Û Ø¹Ø¯Ø§Ù„ØªÙˆÚº سے Ûوتا Ûوا ØªØ®ØªÛ Ø¯Ø§Ø± تک Ù¾Ûنچا اور ملکی تاریخ کا ایک اور باب بند Ûوا۔
جو آئے تھے اÙÙ†ÛÙˆÚº Ù†Û’ قوم سے ÙˆØ¹Ø¯Û Ú©ÛŒØ§ Ú©Û Ù†ÙˆÛ’ روز Ú©Û’ اندر اندر ملک میں انتخابات کرا دیے جائیں Ú¯Û’ ØªØ§Ú©Û Ø¹ÙˆØ§Ù… Ú©Ùˆ اپنے Ø+قیقی نمائندے چننے کا موقع مل سکے۔ جانے والوں Ù†Û’ کبھی سوچا تھا Ú©Û Ø§ÙÙ†Ûیں کبھی Ù…Ø+رومیٔ اقتدار کا ØµØ¯Ù…Û Ø³Ûنا Ù¾Ú‘Û’ گا‘ Ù†Û Ø§Ù“Ù†Û’ والے ÛŒÛ Ø³ÙˆÚ†Ù†Û’ Ú©Û’ لیے تیار تھے۔ ایک Ú©Û’ بعد ایک Ø+Ø±Ø¨Û Ø§Ù“Ø²Ù…Ø§ØªÛ’ Ûوئے Ú©Ù… از Ú©Ù… اÙس Ø+د تک ضرور کامیابی Ø+اصل کرلی Ú©Û Ø§Ù¾Ù†ÛŒ ÙˆÙات تک اقتدار سے چمٹے رÛÛ’Û” اس دوران ملکی آئین Ú†ÙˆÚº Ú†ÙˆÚº کا Ù…Ø±Ø¨Û Ø¨Ù†Ø§ رÛا، غیروں Ú©ÛŒ جنگ اپنے ملک پر مسلط Ú©ÛŒ گئی، اختلاÙ٠رائے رکھنے والوں Ú©Ùˆ Ù¹Ú©Ù¹Ú©ÛŒ پر چڑھایا گیا اور ÙˆÛ Ø³Ø¨ Ú©Ú†Ú¾ کیا گیا جس سے اقتدار Ú©Ùˆ گھر Ú©ÛŒ باندی بنایا جا سکے۔ ÛŒÛ Ø³ÙˆÚ†Ù†Û’ Ú©ÛŒ Ùرصت کسے تھی Ú©Û Ø§ÙÙ† سب اقدامات کا Ù†ØªÛŒØ¬Û Ù…Ù„Ú© Ùˆ قوم Ú©Û’ لیے کیا Ù†Ú©Ù„Û’ گا؟ اجل کا پیغام آیا تو ملک قسم قسم Ú©Û’ مسائل میں گھر چکا تھا۔ Ú©Ûا تو ÛŒÛÛŒ جاتا ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù“Ø¬ بھی ملک Ú©Û’ بیشتر مسائل اÙسی دور Ú©Û’ پیدا Ú©Ø±Ø¯Û Ûیں۔ ÛŒÛ ØµØ§Ø+ب گئے تو اقتدار دو جماعتوں Ú©Û’ مابین میوزیکل چیئر کا کھیل بن گیا۔ کبھی بے نظیر تو کبھی نواز شریÙÛ” صبر کا Ù¾ÛŒÙ…Ø§Ù†Û Ú†Ú¾Ù„Ú©Ø§ تو ایک Ù…Ø±ØªØ¨Û Ù¾Ú¾Ø± ''میرے عزیز ÛÙ… وطنو!‘‘ Ú©ÛŒ آواز گونجی اور پرویز مشر٠مسند٠اقتدار پر آن بیٹھے۔ مجال ÛÛ’ جو کسی Ù†Û’ بھی جانے والوں Ú©ÛŒ داستانوں سے سبق سیکھا ÛÙˆÛ” ÙˆÛÛŒ Ø+ربے‘ ÙˆÛÛŒ طور طریقے اور ÙˆÛÛŒ اظÛار٠طاقت Ú©Û’ جابجا مظاÛر۔ بالآخر اÙÙ† کا اقتدار بھی Ù‚ØµÛ Ù¾Ø§Ø±ÛŒÙ†Û Ø¨Ù†Ø§â€˜ جو کراچی میں قتل عام پر Ù…Ú©Û’ Ù„Ûراتے Ûوئے Ú©Ûتے تھے Ú©Û ÛŒÛ Ø¹ÙˆØ§Ù… Ú©ÛŒ طاقت کا مظاÛØ±Û Ûے‘ ÙˆÛ Ø§Ù“Ø¬ بھی سوچ رÛÛ’ ÛÙˆÚº Ú¯Û’ Ú©Û Ø§Ù“Ø®Ø± میری طاقت ختم کیسے ÛÙˆ گئی؟ وجوÛات چاÛÛ’ Ú©Ú†Ú¾ بھی رÛÛŒ ÛÙˆÚº لیکن تین‘ تین بار ملک Ú©Û’ وزیراعظم رÛÙ†Û’ والے آج اپنے وطن آنے سے بھی قاصر Ûیں۔ ÙˆÛ Ø§Ù“Ø¬ تک ÛŒÛÛŒ سوچ رÛÛ’ Ûیں Ú©Û Ø§ÙÙ†Ûیں کیوں نکالا۔ جو آج اقتدار میں Ûیں‘ اÙÙ† Ú©ÛŒ طر٠سے بھی میں‘ میں اور میں Ú©ÛŒ ÙˆÛÛŒ Ú©Ûانی دÛرائی جا رÛÛŒ ÛÛ’ جو جانے والے دÛراتے رÛÛ’Û” Ú©Ù„ Ú©Ùˆ ÛŒÛ Ø¨Ú¾ÛŒ ÛŒÛÛŒ سوچ رÛÛ’ ÛÙˆÚº Ú¯Û’ Ú©Û ÛŒÛ Ú©ÛŒØ³Û’ رخصت ÛÙˆ گئے، گویا Ú©Ûانی ایک ÛÛŒ Ûے‘ صر٠کردار تبدیل Ûوتے رÛتے Ûیں۔